پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو کو زیر تربیت کہہ دیا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ کے میزبان حامد میر کو خصوصی انٹرویو میں آصف زرداری نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی مکمل ٹرینڈ نہیں ہوا، پڑھا لکھا ہے، اچھا بولتا ہے ، لیکن تجربہ تجربہ ہوتا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے عمر رسیدہ قیادت کو گھر بٹھانے کے بیانیے کو شٹ اپ کال دے دی، انہوں نے واضح کیا کہ بلاول تین پی والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں ، لیکن وہ چار پی والی جماعت کے سربراہ ہیں، ٹکٹ دینے کا اختیار اُن کے پاس ہے ، بلاول کو بھی وہ ہی ٹکٹ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نئی نسل کی اپنی سوچ ہے ، وہ کہتی ہے کہ ’’بابا آپ کو کچھ نہیں پتا‘‘ اسے سوچ کے اظہار کا مکمل حق ہے ، سوچ کے اظہار پر تو ٹیکس نہیں ہے ، وہ بلاول کو بیان دینے سے روکیں گے نہیں ، کیوں کہ اگر وہ ناراض ہوگیا اور کہا کہ گھر بیٹھ جاتا ہوں تو وہ کیا کریں گے۔
آصف زرداری نے کہا کہ بلاول اور ان کا بیانیہ گُڈ کوپ بیڈ کوپ کا نہیں ، یہ ہر گھر کی کہانی ہے ، لیکن یہ الگ بات ہے کہ میاں صاحب کے سامنے کوئی بات نہیں کرتا ، اُن سے سب ڈرتے ہیں۔
سابق صدر نے پروگرام میں اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ عمران حکومت میں پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی سے اتحاد کےلیے 6 وزارتوں کی پیشکش کی گئی، عمران حکومت مائنس زرداری پیپلز پارٹی چاہتی تھی، انہیں ملک سے باہر جانے کا کہا گیا۔
آصف زرداری نے کہا ہے کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد درست فیصلہ تھا، پی ٹی آئی چیئرمین کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا تھا، وہ ملکی معیشت کے دشمن تھے۔ انھیں نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ذریعے آر او الیکشن کروا کے 2028 تک حکومت بنا لیتے، پھر ایک کلو دودھ کے لیے ٹرک بھر کر پیسے لے جانے پڑتے۔
شہباز شریف کو کافی چیزیں کہیں جو نہیں مانیں
سابق صدر نے کہا کہ اتحادی حکومت کا تجربہ کافی مشکل تھا، شہباز شریف کو کافی چیزیں کہیں جو نہیں مانیں، ملک کو نقصان ہوا، 2 ارب کی شوگر پڑی تھی، اجازت نہیں دی، افغانستان اسمگل ہوگئی، ہمیشہ خوردنی تیل درآمد ہوتا ہے، اس پر پابندی لگا دی، تجارت کی وزارت ہمارے پاس تھی لیکن پالیسی تو کابینہ کو بنانی تھی۔
آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ شہباز شریف سے میں متاثر تھا، وہ صبح 6 بجے اٹھتے ہیں، 8 بجے تک کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی جیل میں، بیٹا باہر بیٹھا ہے، بیٹے کو غیرت نہیں کہ واپس آجائے۔
سابق صدر نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ن لیگ لیڈ کرے، دوسری جماعتیں اور شخصیات بھی ہیں، بہتر ہے اس نہج پر چلیں کہ آگے بھی چل سکیں، انہیں چاہیے ہمیں موقع دیں،اب ہم اپنے لیے گیم لگائیں گے۔
سیاست میری مجبوری ہے، ضرورت نہیں
آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ سیاست میری مجبوری ہے، ضرورت نہیں، سیاست ضرورت اس لیے ہے کہ بی بی، کارکنوں نے شہادت دی، ہم پر قرض ہے، پیپلز پارٹی وہ کہتی ہے جو حقیقت ہے، ذوالفقار بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ثابت ہو چکا ہے۔
18ویں ترمیم ٹارگٹ بنتی ہے
آصف زرداری نے کہا کہ 18ویں ترمیم ٹارگٹ بنتی ہے، پیپلز پارٹی دفاع کرے گی، 18ویں ترمیم کے بعد ہم نے تھر کے کوئلے کو ترقی دی، جب سے یہ ترمیم آئی ہے 7 پل بنا چکے، سڑکیں بنا چکے ہیں، ٹیکس سندھ دیتا ہے، ایک روڈ کیلئے بھی وفاق جانا پڑتا تھا، اسلام آباد کی بیوروکریسی پاکستان میں نہیں کسی اور ملک میں رہتی ہے، صبح دفتر جاتے اور شام کو گالف کھیلتے ہیں، انہیں صوبوں کے بنیادی حقوق کا علم نہیں، بلوچستان، خیبر پختونخوا بھی 18ویں ترمیم کا دفاع کریں گے۔
بلوچستان میں دوستوں کی مجبوریاں ہیں
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 9 اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسل جیتی ہے، بلوچستان میں دوستوں کی مجبوریاں ہیں، مجبوریوں کے تحت جہاں پروٹیکشن ملتی ہے دوست چلے جاتے ہیں، بلوچستان میں مزید دوست آئیں گے، فائٹ ہوگی ہم تیار ہیں، ابھی بلوچستان پر مرہم رکھا ہے، بہت کچھ کرنا ہے، جب کریں گے تب آگ ٹھنڈی ہوگی، کوشش کی جائےگی کہ مسنگ پرسن کا مسئلہ حل کیا جائے، ہمسائے پیسہ لگا رہے ہیں کہ بلوچستان میں عدم استحکام ہو، اسے روکنا ہے۔
پیپلزپارٹی الیکشن میں اچھا خاصا سرپرائز دے گی
آصف زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس الیکشن میں اچھا خاصا سرپرائز دے گی، پیپلز پارٹی کے خلاف ہمیشہ اتحاد بنتے ہیں، فنکشنل لیگ نے ہمارے خلاف الائنس بنائے، ایم کیو ایم پہلے بھی ساتھ نہیں تھی، اب بھی نہیں ہے، ایم کیو ایم نے کہا تب حمایت کریں گےجب گورنر دیں گے، ہم نے کہا ٹھیک ہے۔
میاں صاحب سے سب ڈرتے ہیں، بات نہیں کرتے
سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب سے سب ڈرتے ہیں، بات نہیں کرتے، میرے سامنے سب بات کرتے ہیں، پارٹی منشور ہے، گلے سے پکڑتے ہیں، پارٹی کے امیدواروں کو ٹکٹ میں دیتا ہوں، ہم نے تلوار کو گندے انڈوں سے بچایا، گندے انڈوں نے تلوار لینے کی کوشش کی، میں نے کبھی انتقامی سیاست نہیں کی، میرے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا، میرے خلاف نئے الزامات لگتے تھے، میں نے کبھی جواب نہیں دیا، یہ پولیس اسٹیشن نہیں کہ ‘ گڈ کاپ بیڈ کاپ ‘ کھیلا جائے۔
کوئی پارٹی 172 کی اکثریت نہیں لے سکتیانہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی پارٹی 172 کی اکثریت نہیں لے سکتی، اکثریت ن لیگ، نہ مولانا، نہ کوئی اور نہ پیپلز پارٹی لے سکتی ہے، جمہوریت تو کافی عرصے سے کمزور ہورہی ہے، پارلیمنٹ کو اختیارات دینا دوست کو سمجھ نہیں آیا، انہوں نے میری چھٹی کروا دی۔