کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر صحافی و تجزیہ کاروں مطیع اللہ جان، حسنات ملک، عبدالقیوم صدیقی اور حسن ایوب خان نے کہا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی پاناما نہیں اقامہ کیس میں ہوئی،آصف زرداری تاخیری حربے استعمال کر کے ریاست کے ساتھ معاملات سلجھالیتے ہیں اسی لئے کامیاب ہیں.
عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات میں فرق ہے، نواز شریف کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔
سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی پاناما میں نہیں اقامہ کیس میں ہوئی، پاناما کیس میں بنی جے آئی ٹی نے اس میں سے اقامہ نکال لیا تھا، سپریم کورٹ نے اقامہ ٹرائل پر بھیجنے کی بجائے وکیل سے سوال جواب کر کے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا تھا
سپریم کورٹ نے جس طرح سرسری سماعت کے بعد نواز شریف کو نااہل قرار دیا عمران خان کے ساتھ ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، پاناما جے آئی ٹی کی نگرانی کرنے والے جسٹس اعجاز الاحسن ابھی بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں
نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں آٹھ سال کی سزا ہوئی، نواز شریف کو ایون فیلڈ میں بھی سزا ہوئی۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے بغیر ٹرائل کے نواز شریف کو نااہل قرار دیا، اس کے بعد جب ویڈیوز سامنے آئیں تو ان سے بچنے کیلئے جسٹس آصف سعید کھوسہ ججوں نے تفصیلی فیصلے دیئے کہ ویڈیوز کیسے بطور ثبوت پیش ہوسکیں گی.
نواز شریف کے خلاف عدلیہ کو کھلم کھلا استعمال کیا گیا، سیاسی سسٹم کو بریک ڈاؤن اور عدلیہ کو ہائی جیک کیا گیا، اس وقت ہمارے ججز اسٹیبلشمنٹ کے اعانت کار بنے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ نواز شریف اور عمران خان کا موازنہ ایسے ہی ہے کہ ن لیگ کو دو جوتے پڑے ہیں اور عمران خان کو تین جوتے پڑے ہیں۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ نیب میں نئی قیادت آگئی ہے جو جمہوریت کو پسند کرتی ہے، وہ سیاستدانوں کو سزا نہیں دے گی ان کے ساتھ انصاف کرے گی، کاغذات نامزدگی سترہ دسمبر سے اکیس دسمبر تک جمع ہونے ہیں، نواز شریف کو اس سے پہلے کلین چٹ نہیں ملتی تو وہ الیکشن نہیں لڑسکتے، نواز شریف کاغذات نامزدگی تک کلیئر نہیں ہوتے تو ن لیگ اور دوسرے اداروں کی انتخابی حکمت عملی ناکام ہوجائے گی
نیب نے پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی سزا میں دلچسپی نہیں رکھتے اس صورتحال میں لگتا ہے اگلے دو ہفتے میں ان کیسوں میں فیصلے ہوسکتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہمیں قانونی غلطیوں اور پیچیدگیوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، یہاں پر بات یہ ہے کہ اصل فیصلے کون کررہا ہے
پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے دعوے کرنے والے اسی صورت میں الیکشن لڑسکتے ہیں جب عمران خان جیل میں رہیں، عمران خان جیل سے باہر آگئے تو انہیں کون ٹکٹ دے گا، جس دن یہ قانون بن گیا کہ وکلاء وکالت کے ساتھ سیاست نہیں کرسکتے تو اس روز یہ اپنی وفاداری واضح کریں گے۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ عدلیہ نواز شریف کے معاملہ میں بھی استعمال ہوئی عمران خان کے معاملہ میں بھی ہورہی ہے
سپریم کورٹ میں جب تک عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے عمران خان کو سہولت کاری ملی، پاناما کیس میں شریف فیملی کی اپنی غلطیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، نوا زشریف وزیراعظم تھے وہ نیب اور ایف آئی اے سے انکوائری کر کے معاملہ ختم کرواسکتے تھے.
ن لیگ نے جب کہہ دیا تھا ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتماد ہوگا تو پھر قطری خط دینے کی کیا ضرورت تھی۔ حسنات ملک کا کہنا تھا کہ جس طرح نواز شریف کو الیکشن سے پہلے نااہل کیا گیا، عمران خان کیخلاف سائفر کیس میں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ چار ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت دے چکی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ سے پی ٹی آئی کی کچھ شکایات جائز ہیں، سپریم کورٹ میں اب چیزیں آئین و قانون کے مطابق جارہی ہیں۔
حسنات ملک کا کہنا تھا کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوچکی ہے، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل لیکن برقرار ہے، اس وجہ سے وہ اگلے الیکشن کیلئے نااہل ہیں، ریاست جب کسی سیاستدان کو الیکشن لڑنے سے روکنا چاہے تو وہ پھر الیکشن نہیں لڑسکتا
ماضی میں نواز شریف کے بارے میں بھی فیصلہ ہوگیا تھا انہیں الیکشن لڑنے نہیں دیا گیا، آصف زرداری تاخیری حربے استعمال کرکے ریاست کے ساتھ معاملات سلجھالیتے ہیں اسی لئے کامیاب ہیں، ریاست اس وقت سمجھتی ہے عمران خان اس وقت سیاست کرنے کیلئے فٹ نہیں ہیں۔
سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات میں فرق یہ ہے کہ نواز شریف پر آرٹیکل 10-A deny کیا گیا اور عمران خان کو مل رہا ہے، نواز شریف کیخلاف مقدمہ سپریم کورٹ سے شروع ہو کر نیچے آیا یعنی پورا سسٹم الٹا چلایا گیا، عمران خان پر درکار طریقہ کار کے مطابق مقدمات چلائے جارہے ہیں۔