سپریم کورٹ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہرادارے کواپنی حدود میں رہنا چاہیے، پاکستان ہم سب کا ہے ، مل کرہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی، ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتیں یہ بہت کرلیا، لاپتہ افراد کے مسئلے ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین سے کہا کہ اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے، فرخ حبیب، صداقت عباسی وغیرہ سب سیاسی ورکرزہیں، کیا شیخ رشید کو معصوم افراد کی فہرست میں شامل کریں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کا ذکرنہیں کیا، لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ مطیع اللہ جان کس حکومت میں غائب ہوئے تھے۔ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ مطیع اللہ کے غائب ہونے کے وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ چیف جسٹس نے کہا صرف ایک صحافی کا ذکرکیا، پک اینڈ چوز کیوں کررہے ہیں؟ صحافی جب اپنے خلاف جبر پر درخواست لائے توآپ نے مخالفت کی، مان لیں آپ نے تفریق سے کام لیا، اس مسئلے پر آمنہ جنجوعہ کو سُنیں گے انہوں نے کبھی تفریق نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کے ٹھوس کیسز بھی ہیں، لوگ تنظیمیں جوائن کرکے بھی لاپتہ ہوجاتے ہیں، یہ روایت ختم ہونی چاہیے، پرائیویٹ آرمز غیرقانونی ہیں، ریاست کے خلاف کوئی پرائیویٹ آرمی نہیں ہوتی، ہماری بھی حدود ہیں، ہم سب کچھ نہیں کر سکتے، سب ذمہ داری قبول کریں، مل کر حل نکالیں گے تو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوگا، پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے، پُرامن مظاہرہ شہریوں کا حق ہے، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں احتجاج کے حق کو یقینی بنایا گیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا اور کیس کی مزید سماعت کل 3 جنوری تک ملتوی کر دی۔