بھارتی حکومت کی طرف سے متنازعہ شہریت کے قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کی قانون سازی ظاہری طورپر امتیازی نوعیت کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ بھارتی شہریت ترمیمی ایکٹ لوگوں کے درمیان ان کے عقیدے کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ متنازعہ قانون خطے کے مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم کے غلط مفروضے پر مبنی ہے۔
اپنی پریس بریفنگ میں ممتاز زہرا نے مزید کہا کہ امتیازی اقدامات نے بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے مذموم ایجنڈے کو مزید بے نقاب کیا ہے، بھارت منظم طریقوں سے اقلیتوں کو نشانہ بنانا بند کرے۔
ترجمان دفترخارجہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی جماعت کشمیرنیشنل فرنٹ پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے آج کشمیر نیشنل فرنٹ کو غیر قانوںی قرار دے کر پابندی عائد کر دی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے خلاف بھارتی ریاست آسام، تامل ناڈو، کیرالہ اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں کے مظاہرے شروع ہوگئے۔
دوسری جانب مودی حکومت کی جانب سے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ پر امریکا اور اقوام متحدہ نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے بھارت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے اعلان پر فکرمند ہیں، امریکا مذہبی آزادی، اقلیتوں سے مساوی سلوک اور بنیادی جمہوری اصولوں کا احترام کرتا ہے، بھارت میں شہریت ایکٹ پر کیسے عملدرآمد ہوتا ہے اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ بھارت کا شہریت ترمیمی ایکٹ بنیادی طور پر امتیازی ایکٹ ہے جو بھارت کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔ قانون کے نفاذ کا بین الاقوامی انسانی حقوق کے مطابق ہونےکا جائزہ لے رہے ہیں۔