اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران سی ٹی ڈی افسر نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو بھیجے گئے دھمکی آمیز خطوط راولپنڈی جی پی او سے آئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
عدالت نے کمرۂ عدالت میں موجود ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا لیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ہدایت کی کہ ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کے معاملے پر آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز کو بلائیں، انہیں کہیں کہ آدھے گھنٹے میں ہائی کورٹ پہنچیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں پراسیکیوشن کے دلائل 4 صفحات پر جبکہ وکلائے صفائی کا مؤقف 15-16 لائنوں میں لکھا ہے، یہ وکلائے صفائی بھی سرکار کی جانب سے مقرر کیے گئے تھے، شاہ محمود قریشی کے بطور ملزم بیان سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا گیا، ہم سے ایسی کیا گستاخی ہوئی کہ ہمیں کورٹ سے باہر کر دیا کہ آپ اب عدالت نہ آئیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جب کیس دو مرتبہ ریمانڈ بیک ہو کر جائے تو جج کو احتیاط سے کیس سننا چاہیے، ملزمان کے حتمی بیان کے بعد بانیٔ پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے 2-2 سوال پوچھے گئے، سوال پوچھنے کے فوری بعد سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے کہا کہ ملزم کے بیان میں ایک حصہ لکھا ہوا ہے کہ جج سزا سنا کر فوری کورٹ سے روانہ ہو گئے، یہ بیان تو پراسیکیوشن کے شواہد کے جواب میں ملزم کا دفاعی بیان ہوتا ہے جو ججمنٹ سے پہلے ہوتا ہے۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں بھی یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 342 کے بیان میں یہ لکھا ہو۔
جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل جج نے فیصلے میں یہ فائنڈنگ دی کہ پاکستان امریکا تعلقات ختم ہو گئے، ٹرائل جج نے کِس بنیاد پر یہ لکھا کہ تعلقات ختم ہو گئے؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اسد مجید نے ڈونلڈ لو کے ساتھ لنچ کیا اور اس لنچ پر گفتگو کی، ٹرائل جج نے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید کے بیان کی بنیاد پر لکھا۔
جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ اسد مجید نے بھی یہ نہیں کہا۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے شاہ محمود قریشی کی پبلک گیدرنگ میں تقریر دوبارہ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس تقریر پر 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف الزامات سیکرٹ ڈاکیومنٹ ڈسکلوز اور پھر اسے غائب کرنے کے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے بتایا تھا کہ دو چارجز لگا دیے گئے، چارج تو ایک لگنا چاہیے تھا، شاہ محمود قریشی پر ڈسکلوز کرنے کا نہیں، معاونت کا الزام ہے۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جج صاحب فیصلے میں لکھتے ہیں کہ ریاست کے اعتماد کا قتل کیا گیا، ملزمان رعایت کے مستحق نہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ لگ رہا ہے اگر فارن اسٹیٹ نے کوئی جارحانہ بات کی ہے تو آپ بتائیں گے نہیں، وہ بات اس لیے نہیں بتائیں گے کیونکہ وہ بات سائفر میں آئی ہے، سائفر اگر سائفر کے طور پر نہ آتا اور عمومی طور پر بھیجا جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ اگر سائفر ڈپلومیٹک بیگ کے طور پر آتا تو کیا وزیرِ اعظم اُسے سامنے لا سکتے تھے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ لیکن پھر مسئلہ وہی ہے کہ سائفر میں تھا کیا؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نےکہا کہ سائفر ایک سفید کوا ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ ایک طرف آپ ڈی مارش کر رہے ہیں، دوسری طرف کہہ رہے ہیں اُس ملک سے تعلقات خراب نہ ہوں، آپ نے اس ملک سے تعلقات خراب نہ کرنے کے لیے سابق وزیرِ اعظم کو جیل میں ڈال دیا۔
اس موقع پر عدالت میں ڈی آئی جی آپریشنز پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈی آئی جی آپریشنز سے کہا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ کل ہائی کورٹ میں جو واقعہ ہوا، اس کا مقدمہ بھی درج ہو گیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ ہم نے خطوط اور ان کے لفافے اینالیسز کے لیے لیب کو بھجوا دیے ہیں، پوسٹ ماسٹر جنرل کو لکھا ہے کہ ایک اسٹیمپ صحیح نہیں پڑھی جا رہی، اسی طرح کے لیٹرز لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی آج موصول ہوئے ہیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ پولیس اور انویسٹی گیشن ایجنسیز کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کا اسٹاف صرف ناکوں پر کھڑا ہونا اور لوگوں کو تنگ کرنا جانتا ہے، ہمیں روز شکایتیں آتی ہیں کہ وکلاء کو پولیس ناکے پر روکا گیا ہے، آپ نے لیٹرز کے تجزیے کے علاوہ تفتیش میں کیا کیا؟ اب تو سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ لگے ہوتے ہیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نےکہا کہ ان کو ضرور ریشم کو ڈھونڈنا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ابھی اسٹیمپ ہی نہیں پڑھ پا رہے ہیں تو ہم کس کو کہیں؟ یہ خطوط کون سے ڈاک خانے سے پوسٹ کیے گئے ہیں؟
ڈی آئی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ جو تھوڑی بہت اسٹیمپ پڑھی گئی ہے وہ راولپنڈی کے علاقے کی ہے۔
سی ٹی ڈی افسر نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ لیٹرز راولپنڈی جی پی او سے آئے، جی پی او میں کسی لیٹر باکس کے ذریعے یہ لیٹرز پہنچے تھے، ہم لیٹر باکس کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں، کچھ لیٹرز پر بھجوانے والے کا نام ریشم اور کچھ پر ریشمہ لکھا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عید قریب آ رہی ہے، ناکے پر کھڑے ہونے والوں کو ہدایات کریں، جو ناکے پر کچھ دے رہا ہے اس کی بھی عید ہے، اس کا بھی خیال کریں۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ میں نے اپنے موبائل نمبرز دیے ہیں، کسی کو بھی شکایت ہو تو وہ رابطہ کر سکتا ہے۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نےکہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے اس کیس کو چلاتے وقت اپنے حلف کا خیال بھی نہیں رکھا، دشمن ریاست کون سی ہے، دشمن ریاست کو کیا فائدہ پہنچایا گیا؟ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ سائفر کمیونی کیشن سے متعلق کوئی شواہد نہیں آئے، قانون کا مذاق بنایا گیا، غیر سنجیدہ پراسیکیوشن کی گئی۔
سائفر کبھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا: بانیٔ PTI کے وکیل کا دعویٰ
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر سامنے اس لیے نہیں لائے کیونکہ وہ ملزم کی فیور کرتا، سائفر کا متن پلین ٹیکسٹ کی صورت میں بھی سامنے نہیں آیا، ایسا نہیں کہ سائفر گم ہو گیا، صرف ایک کاپی واپس نہ آنے پر کیس بنایا گیا، سائفر کی تو 9 کاپیاں واپس نہیں آئی تھیں پھر یہ کیس صرف بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف کیوں ہے؟ سائفر آج بھی ساتھ والی بلڈنگ میں موجود ہے، سائفر تو اس کو کہنا ہی نہیں چاہیے، وہ تو فارن آفس میں رہ گیا، اس کی کاپیاں بھجوائی گئیں، اگر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ختم ہو تو چیزوں کو بہتر کرنے کا موقع بھی مل جائے، سائفر کبھی بھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا۔
سماعت کل تک ملتوی
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے استدعا کی کہ میں 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق نے کہا کہ ہم آپ کو کل آدھا گھنٹہ سنیں گے۔