بنگلادیش ۔ خاتون صحافی سارہ کی لاش ڈھاکا ہتھیر جھیل سے برامد ہوئی صحافی کی موت کئے سولات کو جنم دیتی ہیں ۔
نگلادیشی میڈیا کے مطابق 32 سالہ سارہ رہنما بنگالی زبان کے ایک نیوز چینل میں نیوز روم ایڈیٹر تھیں جن کی لاش ڈھاکا کی ہاتھیر جھیل سے برآمد ہوئی۔
ایک راہگیر نے سارہ کی لاش کو جھیل پر تیرتے دیکھ کر اسے باہر نکالا اور اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے سارہ کی موت کی تصدیق کی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اپنی موت سے قبل سارہ کی جانب سے کی گئی دو سوشل میڈیا پوسٹ بھی سامنے آئی ہیں۔
منگل کی رات 10 بج کر 24 منٹ پر بنگالی زبان میں کی گئی پہلی پوسٹ میں سارہ نے لکھا کہ موت کے مترادف زندگی جینے سے بہتر ہے کہ انسان مر ہی جائے۔
رات 10 بج کر 36 منٹ پر کی گئی دوسری پوسٹ میں سارہ نے کسی فہیم فیصل کو بھی ٹیگ کیا اور اس پوسٹ میں سارہ اور فیصل کی تصویر بھی منسلک تھی۔
اس پوسٹ میں سارہ نے لکھا کہ ’آپ جیسا دوست ملنا اچھا لگا، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے، امید ہے کہ آپ جلد ہی اپنے تمام خواب پورے کریں گے، میں جانتی ہوں کہ ہم نے ایک ساتھ بہت سی چیزوں کی منصوبہ بندی کررکھی تھی لیکن معذرت میں یہ منصوبہ بندی پوری نہیں کر سکتی، خدا آپ کو خوش رکھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سارہ کی موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کی جائیں گی تاہم تحقیقات سے قبل ہی سابق بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے بیٹے سارہ رہنما کی موت کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دے دیا ہے۔
مقامی میڈیا نے سارہ کے شوہر کا حوالے دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سارہ ان سے علیحدگی چاہتی تھیں اور وہ دونوں اپنی علیحدگی کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد ہی قاضی کے دفتر جانے والے تھے۔