گزشتہ روزکراچی پریس کلب کے باہر خواتین سماجی کارکنان اور صحافیوں پر تشدد میں ملوث ایس ایچ او عیدگاہ ظہیر احمد سمیت 10 اہلکاروں کو معطل کردیا گیا۔
کراچی کے ریڈ زون میں گزشتہ روز دو الگ الگ ریلیوں کا اعلان کیا گیا تھا جس دوران ہنگامہ آرائی اور پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور تشدد جیسے واقعات پیش آئے۔
پولیس نے کراچی کے ریڈ زون میں ہنگامہ آرائی پر آرٹلری میدان تھانے میں دو مقدمات درج کرلیے۔ مقدمے میں دہشتگردی اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق مقدمات ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر درج کیے گئے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس موبائل کو آگ لگائی گئی جس سے موبائل میں سرکاری ایس ایم جیز، پستول اور وائر لیس سیٹ جل گیا، ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ میں مذہبی جماعت کے کارکنان ملوث ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ایک مقدمہ میں 55 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دوسرے مقدمہ میں 500 سے زائد افراد کا بتایا گیا ہے۔
میٹروپول پر ہنگامہ آرائی کے دوران محمد ماجد جاں بحق ہوا تھا۔ واقعہ میں ملوث ملزمان کی تلاش شروع کردی گئی ہیں۔
گزشتہ روز کراچی پریس کلب پر پولیس نے سندھ رواداری مارچ کے شرکا پر لاٹھی چارج کیا تھا اور متعدد سماجی کارکنان و خواتین کو گرفتار کیا گیا۔
سندھ حکومت نے کراچی پریس کلب کے باہر خواتین، سماجی کارکنوں اور صحافیوں پر تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او عیدگاہ ظہیر احمد سمیت 10 اہلکاروں کو معطل کردیا۔
ڈی آئی جی جنوبی کے مطابق پولیس اہلکاروں کیخلاف محکمانہ کارروائی کی گئی ہے اور معطل اہلکاروں کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے شناخت کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی برادری سمیت خواتین و بچوں پر کسی بھی طرح تشدد یا ناروا سلوک کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔
اُدھر سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کیلئے ڈی آئی جی ویسٹ، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ اور ایس ایس پی پرمشتمل کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور کمیٹی تین دن میں رپورٹ پیش کرے گی.
خیال رہے کہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے میں حراست میں لیے گئے صحافیوں اور دیگر افراد کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا تھا.