
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کے لیے ہے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کے لیے ہے، جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا آئین پاکستان میں درج ہے آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کے لیے ہے، میں آپ کے سامنے بتا دوں 9 مئی واقعات میں انسداد دہشت گردی کا کوئی جرم نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 8 تھری یقینی بناتا ہے کہ افواج اپنے فرائض کو درست طریقے سے ادا کر سکیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تو آیا ہے، خواجہ حارث نے جواب میں کہا ایف بی علی کیس چیلنج اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں۔
جسٹس امین الدین نے کہا اگر نیکسز نہیں بھی بنتا تب بھی سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار کیسے دیا جا سکتا ہے، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کب تک دلائل مکمل کر لیں گے، آئندہ دو ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں۔
آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔