ریٹائرڈ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی کا اختیار دینے کے معاملے پر عافیہ شہربانو کیس میں حکومتی اپیل پر کیس کے اصل درخواست گزاروں نے مشترکہ بیان دے دیا۔
مشترکہ بیان عافیہ شہربانو، افراسیاب خٹک، فرحت اللّٰہ بابر اور دیگر کی جانب سے جاری ہوا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت بظاہر جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی میں دلچسپی رکھتی ہے، حکومت کے اس کیس میں سیاسی عزائم ہو سکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عافیہ شہربانو کیس ریاستی عزائم کے لیے نہیں، وسیع مفاد کے لیے ہی چلانا چاہتے ہیں، اس کیس کو کسی ڈھونگ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، عافیہ شہربانو کیس وسیع مفاد اور عدلیہ کی آزادی کے لیے تھا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف 89 شہریوں کے دستخط سے ریفرنس دائر ہوا، کارروائی کو ہر لیگل فورم پر التواء میں ڈالا جاتا رہا، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ججز سمیت ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ مخصوص ججز کو الگ کر کے پراکسی ریفرنس بنوانا حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، مخصوص ججز پر پراکسی ریفرنس بنوا کر کارروائی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔
وفاقی حکومت نے عافیہ شہر بانو کیس کا فیصلہ چیلنج کر دیا
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے عافیہ شہر بانو کیس کا فیصلہ پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے اپیل میں جوڈیشل کونسل اور رجسٹرار سپریم کورٹ سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
وفاقی حکومت نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ اصول طے کرے کسی جج کے مستعفی ہونے کے باوجود کونسل کارروائی جاری رکھ سکتی ہے، سپریم کورٹ 27 جون 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
سابق جج اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عافیہ شہر بانوں کیس کا فیصلہ دیا تھا، فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کوئی جج مستعفی ہو جائے یا ریٹائرڈ ہو جائے تو کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔