پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر محمد حفیظ نے کہا ہے کہ میلبرن ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو ہرا سکتے تھے، ہم جیت کے قریب تھے، اہم مواقع پر کیچ ڈراپ کیے۔
میلبرن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمد حفیظ نے کہا کہ ٹیم زیادہ متحد اور ہر کھلاڑی جارحانہ انداز میں کھیلتا نظر آیا، پاکستان ٹیم شاندار کھیلی، کارکردگی سے مطمئن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ میچ کے اختتام سے آدھے گھنٹے پہلے تک ہماری بھی جیت نظر آرہی تھی، بدقسمتی سے جو اہم لمحات تھے وہاں غلطیاں ہوئیں، پہلی اننگ میں 50 سے زیادہ رنز اضافی دیے جس پر دکھ ہوا۔
’مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ہار گئے‘
محمد حفیظ نے کہا کہ پہلی اننگ میں ایک اچھی پارٹنرشپ لگی لیکن پھر ڈیرھ گھنٹے میں 5 آوٹ ہوگئے، میلبرن ٹیسٹ میں یہ ایسے لمحات تھے جس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ہار گئے۔
انہوں نے کہا کہ شان مسعود، بابر اعظم، رضوان اور سلمان جب وکٹ پر تھے تو جیت نظر آرہی تھی۔ رضوان کا فیصلہ ایسا ہوا جہاں سے میچ پلٹ گیا، امپائزر کال کبھی فیور میں جاتی ہے کبھی خلاف چلی جاتی ہے، جو گیند تین اسٹمپ کو لگے وہ آؤٹ ہونا چاہیے۔
محمد حفیظ نے کہا کہ بابر اعظم شاندار بیٹر ہیں، ان کی بڑی اننگز کے لیے دعا گو ہوں، بابر اعظم نے پِچ پر جو وقت گزارا وہ بہت اچھا لگا، میلبرن ٹیسٹ میں کھلاڑیوں کی محنت میں کمی نہیں نظر آئی، یہ حقیقت ہے پرتھ ٹیسٹ خراب کھیلے جبکہ میلبرن ٹیسٹ میں فائٹنگ اسپرٹ نظر آئی۔
’کھلاڑی لڑ کر ہارے اس وجہ سے مطمئن ہوں‘
ٹیم ڈائریکٹر نے کہا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، کھلاڑی لڑ کر ہارے اس وجہ سے مطمئن ہوں۔ سعود شکیل سمیت کسی بیٹر نے غلط شارٹ نہیں مارا، سعود شکیل نے جس وقت جو شارٹ مارا اس وقت اس کی ضرورت تھی۔
’شان اور بابر کی کپتانی پر موازنہ کرنے والا نہیں ہوں‘
محمد حفیظ نے کہا کہ دونوں ٹیسٹ میچز میں جو بڑی کمی نظر آئی وہ لمبی پارٹنرشپ نہ ہونا تھی، شان مسعود اور بابر اعظم کی کپتانی پر موازنہ کرنے والا میں نہیں ہوں، شان مسعود نے فیلڈ میں جو فیصلے کیے وہ اچھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شان مسعود ٹیسٹ میچز میں جارحانہ انداز میں کھیلنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی توقع بھی دیگر بیٹر سے جارحانہ کھیلنے کی ہے، پاکستان ٹیم ٹیسٹ فارمیٹ میں نمبر 6 پر ہے، ہم سے اوپر کی پانچ ٹیمیں ٹیسٹ میں جارحانہ انداز سے کھیلتی ہیں۔
محمد حفیظ نے کہا کہ شان مسعود بحیثیت کپتان پہلے خود اسطرح کھیلنے کی کوشش میں ہیں، ایسا کرنے میں وقت لگے گا ایڈجسٹ ہونے میں اور زون بدلنے میں وقت لگتا ہے۔
’ہر ملک کی کنڈیشن کا اپنا فلیور ہوتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ اس دورے پر جو ایک بڑی کمی نظر آئی وہ کنڈیشن سے ہم آہنگ نہ ہونے کی بھی ہے، آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور انگلینڈ جیسے ممالک میں تین ہفتے پہلے جانا چاہیے، دو چار روزہ پریکٹس میچ ملنے چاہئیں، صرف دس دن پہلے جانے سے صیح تیاری نہیں ہوگی، پاکستان میں سِلو باؤنس پِچز ہوتی ہیں، ہر ملک کی کنڈیشن کا اپنا فلیور ہوتا ہے۔