پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں شہریار آفریدی، آصف خان، کامران بنگش اور آفتاب عالم کے انتخابی نشانات سے متعلق کیس میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
جسٹس صاحب زادہ اسد اللّٰہ اور جسٹس اعجاز خان نے کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شہریار آفریدی این اے 35 کوہاٹ سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ نے سوال کیا کہ شہریار کو انتخابی نشان مل گیا تو پھر کیا مسئلہ ہے؟
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ کس قانون کے تحت یہ کہہ دیں کہ بوتل کی جگہ کوئی اور انتخابی نشان دے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ قانون میں سابق پارلیمنٹیرینز کو اپنی مرضی کا نشان منتخب کرنے کا حق ہے۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ نے سوال کیا کہ جب قانون میں مرضی کا نشان لینے کا حق ہے تو کیوں نہیں دیا گیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سابق پارلیمنٹریننز کو بلکل حق ہے کہ اپنی مرضی کا نشان لیں مگر ان کا کوئی بندہ نہیں آیا نہ درخواست دی، یہ کوئی درخواست بتا دیں کہ انہوں نے کوئی نشان مانگا اور ان کو نہیں ملا، اب تو سب کچھ فائنل ہے، بیلٹ پیپرز پرنٹ ہو رہے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہمیں تو سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ یہ نشان الاٹ کیا گیا۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ پہلے سے شیڈول جاری ہوتا ہے، آپ کو کیسے پتہ نہیں تھا۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ 13 جنوری کو رات 12 بجے تک وقت بڑھا دیا گیا تھا، اس لیے 14 جنوری کو درخواست دی، آصف خان قومی حلقہ این اے 32 پشاور سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہے، پی ٹی آئی کے امیدوار آصف خان کو ہاتھ گاڑی کا نشان دیا گیا ہے۔
جسٹس صاحب زادہ اسد اللّٰہ نے کہا کہ ہاتھ گاڑی تو پھر بھی تمیز والا نشان ہے۔