
خیبرپختونخوا اسمبلی پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں کی جانب سے کاغذات واپس نہ لینے پر انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ اور اراکین اسمبلی کی جانب سے پارٹی پالیسی کے خلاف دوسرے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سینیٹ انتخابات میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے چکے ہیں۔
2018 کے سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اکثریت ہونے کے باوجود اپنے عددی تناسب کے مطابق سینیٹ کی نشستیں نہیں جیت سکی تھی۔ پی ٹی آئی کا امیدوار الیکشن ہار گیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی صرف سات اراکین اسمبلی کی بدولت سینیٹ کی دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
پی ٹی آئی کے 19 اراکین اسمبلی نے مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے جس پر ان کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حکم پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
خیبرپختونخوا میں 21 جولائی کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرانے کا معاہدہ کیا جس کے تحت 6 نشستیں حکومت اور پانچ اپوزیشن کو ملیں گی۔
تاہم عرفان سلیم سمیت پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں کی جانب سے پارٹی قیادت کی ہدایت کے باوجود کاغذات نامزدگی واپس نہ لینے پر خفیہ بیلیٹ کے ذریعے امیدواروں کا چناؤ ہوگا جس سے نہ صرف ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ اراکین اسمبلی ناراض امیدواروں کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ناراض امیدواروں نے کاغذات واپس نہ لیے تو پارٹی ڈسپلن کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔